فرضی لطیفہ منجانب اکبر الہ آبادی / Fake Joke by Akbar Allahabadi

اکبر الہ آبادی کو ہم مزاحیہ شاعری کی وجہہ سے جانتے ہیں مگر یقین کیجئے کہ اس میں اکبر کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ المیہ ہمارا اپنی زبان سے شدید پستی کے تعلق کا ہے کہ ہم بڑی سے بڑے بات کو بھی مزح سمجھ لیتے ہیں، ہنس لیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اکبر کا طریقہ مزاحیہ ضرور ہوسکتا ہے مگر ان کی ہر بات میں ایک معنویت، ایک پیغام تھا جس کو ہم ناسمجھ مزے لے کر آگے نکل گئے۔

آئیے اکبر کی ایک شاعری پر نظر ڈآلتے ہیں جہاں اکبر نے لیلیٰ مجنوں کی کہانی کے ذریعے کیسے جدید تعلیمی نظام کے خلاف اپنی رائے دی ہے۔ 

فرضی لطیفہ منجانب اکبر الہ آبادی

خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ
مجھے تو ان کی خوشحالی سے ہے یاس

یہ عاشق شاہد مقصود کے ہیں
نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس

سناؤں تم کو اک فرضی لطیفہ
کیا ہے جس کو میں نے زیب قرطاس

کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے ایم اے پاس

تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس

کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائ
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس

کجا یہ فطرتی جوش طبیعت
کجا ٹھونسی ہوئی چیزوں کا احساس

بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پہ لادی جاتی ہے کہیں گھاس

یہ اچھی قدر دانی آپ نے کی
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس

دل اپنا خون کرنے کو ہوں موجود
نہیں منظور مغز سر کا آماس

یہی ٹھہری جو شرط وصل لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس


Comments