کتاب، بچے اور ہم / Books, Kids and Us
کتاب پڑھنا سیکھا نہیں جاتااور نا سیکھایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک فطر ی عمل ہے اور فطری ہی رہے گا۔ کسی بھی بیرونی مداخلت انسان کو گویا وہ جوان یا بوڑھا، اُسے کتاب سے قریب کرنے کے بجائے دور کردے گی۔ نوجوان ہر اُس کتاب کو پڑھنا چاہے گا جو اُن کے لیے بامعنی ہو اور آسانی سے اُس کی دسترس میں ہوں۔ کبھی جلد پڑھلے گا اور کبھی دیر لگے گی۔ کبھی ایک کتاب پڑھے گا اور کبھی ایک ہزار۔
ہم بڑوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم صبر کریں۔ عجلت پسندی سے کام نا لیں۔ کتابیں زیادہ پڑھنے سے یا کم پڑھنے سے ہماری اولاد کی عزتِ نفس پر فرق نہیں آنے دیں۔ میں نے خود کتابیں پڑھنا 30 سال کی عمر میں شروع کیا، اور الحمداللہ میرے والدین نے اس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مجھے نکما قرار نہیں دیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کے لیے کتابیں دستیاب کرنی ضروری ہیں۔ ابتدا میں ہمیں اپنی مشاہداتی صلاحیت کا استعمال کرنا چاہیے اور بچوں کی دلچسپیوں کو دیکھ کر ان کے مطابق کتابیں لانی چاہئیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کتابوں کا مجموعہ بہت مختلف ہو جائے گا۔
جزاک اللہ!
Comments
Post a Comment