اصلی لوگ / Real People - Parenting by Waqar Hussain

آج ایک مشکل بات کرنی ہے۔ اللہ کرئے کے میں کر پاوں اور آپ اس کو پڑھ پائیں۔

اَللّٰهُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَهٗ

کسی انجانے اور نصاب کی حدوں میں پھنسے ہوئے استاد سے کہیں بہتر ہے کہ ہماری اولادیں اصل لوگوں سے باتیں کریں، اصل لوگوں کو سنیں، اُن کے چہرے دیکھیں۔ یہ کام کرنے سے اللہ  کی ذات سے پوری اُمید ہے کہ کسی بھی بیرونی مداخلت کے بغیر ہماری اولادیں دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی سے ہمکنار ہونگیں۔

روایتی خاندانی نظام میں یہ کام  آسان تھا۔ ایک بڑا گھر تھا، جہاں دادا اور اُن کی تمام اولادیں اپنے اہل و اعیال کے ساتھ اپنے اپنے کمروں میں رہتیں تھیں۔ تمام کمروں کے بیچ میں ایک صحن تھا، جہاں شام میں مختلف نشستیں ہوتیں تھیں،کہیں مکالمے تھے، کہیں سوال تھے،  سننے کا موقع تھا، سیکھنے کا عمل تھا۔ اگر کوئی اپنے اسکول میں کسی نفسیاتی صحت سے محروم اُستاد کا شکار ہو بھی جاتا تھا تو شام میں اپنے روایتی رنگوں میں واپس  آجاتا تھا۔ جیسے انگریزی میں reset ہوتے ہیں ٹھیک ویسے ہی۔
پھر ہوا یوں کہ سب جدید ہوگئے، ایک بڑا گھر بک گیا،  سب الگ ہوگئے۔ Nuclear families کا دور آگیا۔  پھر نا صحن رہا، نا بڑے رہے، اور نا ہی مکالمے رہے۔ سیکھنے کا پورا عمل اب اِسکولوں کے ذمہ ہوگیا۔ جہاں ہماری اولادوں کی زبان پر نمک رکھ کر میٹھا سکھایا گیا تو اُنھوں نے مان لیا کہ یہ ہی میٹھا ہے۔ ہماری اولادوں کے پاس وہ شامیں اور وہ نشستیں ہیں ہی نہیں جہاں وہ غیر نافع علم سے reset ہوسکیں۔ 

یقینی حل یہ ہی ہے کہ روایت کو جانا جائے، روایت سے محبت کی جائے، روایت کو اپنایا جائے۔ اگر یہ کرنا ممکن نہیں تو کم از کم بڑوں سے محبت کی جائے، اپنے بچوں کے ساتھ بڑوں میں وقت گزارا جائے، شاپنگ مالز اور سینماوں سے زیادہ دادا دادی، نانا نانی کو ترجیح دی جائے۔ محسن نقوی کا شعر ہے:

جو بات معتبر تھی وہ سر سے گزر گئی
جو لفظِ سرسری تھا وہ دل اُتر گیا

Comments