Learning is not the product of teaching / علم پڑھانے کے نتیجے سے نہیں آتا

 Learning is not the product of teaching / علم پڑھانے کے نتیجے سے نہیں آتا

یہ جملہ ایک حقیقت کو ظاہر کرتا ہے جسے ہم میں سے اکثر اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سیکھنے کا عمل تعلیمی اداروں اور رسمی تدریسی تجربات تک محدود ہے، مگر یہ تصور حقیقت سے دور ہے۔ کلاس روم کی فضا میں یاد کردہ تعارفی باتیں اور تعلیمی اسباق عموماً یاد بھی نہیں رہتے۔

اصل سیکھنے کا عمل لوگوں سے ہوتا ہے—کبھی اساتذہ سے، لیکن کلاس روم سے باہر۔ جب اساتذہ نے دل سے بات سنی، ہماری سوچ کو سمجھا، اور ذاتی مدد فراہم کی، تب سیکھنے کا حقیقی عمل شروع ہوا۔ دوستوں، ساتھیوں، اور یہاں تک کہ رہنماؤں سے بھی قیمتی سبق ملے۔ ان غیر رسمی مواقع پر وہ بصیرت پیدا ہوئی جو تعلیمی نصاب فراہم نہیں کر سکتا تھا۔

کتابیں بھی ایک اہم ذریعہ بنیں، چاہے وہ اردو میں ہوں یا انگریزی میں، چاہے وہ مغرب کی ہوں یا ہماری اپنی ثقافت سے جڑی ہوئی۔ مگر سب سے زیادہ اہمیت تجربات کو حاصل ہوئی۔ جب ان کتابوں کی باتوں کو عمل میں لایا گیا، غلطیوں سے سیکھا گیا، اور پچھلے علم کو مزید بہتر کیا گیا، تب جا کر علم کا سفر آگے بڑھا۔

یہ سوچ کہ سیکھنا رسمی تعلیم یا تدریس سے نہیں بلکہ تجربات اور روابط سے ہوتا ہے، والدین اور بچوں کے لیے بھی اہم ہے۔ بچوں کے لیے علم محض کتابوں میں قید نہیں ہوتا۔ انہیں لوگوں، تجربات اور مختلف مواقع تک رسائی ملنی چاہیے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے بچے سیکھتے ہیں اور ان کا شعور پختہ ہوتا ہے۔

جیسا کہ فیض احمد فیض نے کہا:

دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

یہ شعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مشکلات اور ناکامیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ ان کو سیکھنے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ بچوں کو بھی یہ سمجھانا ضروری ہے کہ ہر تجربہ، ہر غلطی، اور ہر موقع سیکھنے کا حصہ ہے، اور اس عمل میں کبھی کوئی ناکامی حتمی نہیں ہوتی۔


Comments