Posts

God & Kids! The Tragedy

God has placed within every human being the natural ability and importance of seeking and questioning. This is why the skills of asking questions and reflecting deeply are inherently given to everyone from birth. When it comes to the existence of God, many questions naturally arise in the mind. In a nurturing environment, these questions find their way to the surface, and parents, along with other elders, thoughtfully respond in a way that guides the child. But this practice has almost disappeared now. Children rarely ask questions, and the adults at home are not troubled by this lack of curiosity. Instead, they feel relieved, thinking their valuable time has been saved. Even today, my mind is full of countless questions about God and His existence, but I have no answers—and no idea where to find them. Perhaps, in the beginning, I felt restless about not having answers, but I learned to settle into ignorance over time. Life went on like that. The real tragedy was that my elders didn’t ...

The Struggle of Paths

Obstacles do not hinder the path of worldly desires; they adorn the path of Allah. If a wall were to block the way of our desires, we would exert all our strength to overcome it. Yet, if even a small pebble appears on the path of Allah, we act as though it might destroy us. We live in an age where pleasure has become the ultimate value. It is a time when a mere straw on Allah's path seems like a mountain, while a mountain on the path of desires feels as light as a straw. May Allah protect us!

فرضی لطیفہ منجانب اکبر الہ آبادی / Fake Joke by Akbar Allahabadi

اکبر الہ آبادی کو ہم مزاحیہ شاعری کی وجہہ سے جانتے ہیں مگر یقین کیجئے کہ اس میں اکبر کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ المیہ ہمارا اپنی زبان سے شدید پستی کے تعلق کا ہے کہ ہم بڑی سے بڑے بات کو بھی مزح سمجھ لیتے ہیں، ہنس لیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اکبر کا طریقہ مزاحیہ ضرور ہوسکتا ہے مگر ان کی ہر بات میں ایک معنویت، ایک پیغام تھا جس کو ہم ناسمجھ مزے لے کر آگے نکل گئے۔ آئیے اکبر کی ایک شاعری پر نظر ڈآلتے ہیں جہاں اکبر نے لیلیٰ مجنوں کی کہانی کے ذریعے کیسے جدید تعلیمی نظام کے خلاف اپنی رائے دی ہے۔  فرضی لطیفہ منجانب اکبر الہ آبادی خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ مجھے تو ان کی خوشحالی سے ہے یاس یہ عاشق شاہد مقصود کے ہیں نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس سناؤں تم کو اک فرضی لطیفہ کیا ہے جس کو میں نے زیب قرطاس کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے کہ بیٹا تو اگر کر لے ایم اے پاس تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائ کجا عاشق کجا کالج کی بکواس کجا یہ فطرتی جوش طبیعت کجا ٹھونسی ہوئی چیزوں کا احساس بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے ہرن پہ لادی جاتی ہے کہیں گھاس یہ اچھی ...

بچے موجود ہیں / Children Exists

  بچوں کی دنیا ایک کائنات کی مانند ہے، جس میں وہ اپنی شناخت کے ستارے روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی ہر حرکت، ہر مسکراہٹ، اور ہر آنسو ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ "ہم یہاں ہیں، ہمیں پہچانیے۔" لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم، والدین اور بڑے، اکثر اس خاموش پکار کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ زندگی کے اس سفر میں، بچے ہمارے لیے ایک آئینہ ہیں، جو ہمیں ہماری اپنی ذات، ہماری ناکامیاں، اور ہماری امیدیں دکھاتے ہیں۔ ان کی موجودگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسانی تعلقات کی اصل بنیاد محبت، احترام، اور قبولیت ہیں۔ جب ہم ان کے جذبات کو نظرانداز کرتے ہیں یا ان کی غلطیوں پر ان کا مذاق اڑاتے ہیں، تو ہم صرف ان کے دلوں کو زخمی نہیں کرتے بلکہ ان کے وجود کی گہرائیوں کو مجروح کرتے ہیں۔ اُصولی بات یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ذات کی تکمیل چاہتا ہے، اور بچے بھی اسی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ لیکن ان کی ذات کی یہ تکمیل تبھی ممکن ہے جب ہم ان کی موجودگی کو تسلیم کریں۔ بچوں کی عزت ان کی روح کی آبیاری کرتی ہے، ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے، اور انہیں اپنے خوابوں کی تکمیل کے سفر پر گامزن کرتی ہے۔ اقبال نے کمال کہا تھا: دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رک...

ایک چمچ اور بچے کی دنیا اور سیکھنے کا عمل / Children and their world of learning

  ایک دو سالہ بچے کی کہانی ہے جس نے ایک دن چمچ کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔ پہلے پہل، وہ چمچ کو صرف آواز پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا، مختلف آوازیں نکالتا اور خوش ہوتا۔ پھر ایک دن، اُس نے دیکھا کہ اُس کی ماں چمچ سے کھانا نکال کر اُس کی بڑی بہن کو کھلا رہی ہے۔ یہ دیکھ کر اُس کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا—چمچ دوسروں کو کھلانے کے لیے ہوتا ہے۔ اب وہ بھی سب گھر والوں کو چمچ سے کھلانے لگا۔ کچھ دنوں بعد، اُس نے اپنی بڑی بہنوں کو خود چمچ سے کھاتے دیکھا۔ یہ منظر اُس کے لیے ایک اور انکشاف تھا: چمچ خود کو کھلانے کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ جلد ہی اُس نے یہ نیا طریقہ اپنا لیا اور خود کو چمچ سے کھلانے لگا۔ یہ کہانی بچوں کی فطری سیکھنے کی خوبصورتی بیان کرتی ہے۔ بچے ہر بڑے اور چھوٹے خیال کو وقت دیتے ہیں، اُسے بار بار پرکھتے ہیں، اور آخر کار اُس پر گرفت حاصل کر کے اُسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ یہی اصل علم ہے۔ اگر ہم اُن کے اس قدرتی عمل میں دخل دیں، تو اُن کی سیکھنے کی صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔  اللہ ہمیں یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ بچوں کو سیکھنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں، آمین۔

کتاب، بچے اور ہم / Books, Kids and Us

کتاب پڑھنا سیکھا نہیں جاتااور نا سیکھایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک فطر ی عمل ہے اور فطری ہی رہے گا۔ کسی بھی بیرونی مداخلت انسان کو گویا وہ جوان یا بوڑھا، اُسے کتاب سے قریب کرنے کے بجائے دور کردے گی۔   نوجوان ہر اُس کتاب کو پڑھنا چاہے گا جو اُن کے لیے بامعنی ہو اور آسانی سے اُس کی دسترس میں ہوں۔ کبھی جلد پڑھلے گا اور کبھی دیر لگے گی۔ کبھی ایک کتاب پڑھے گا اور کبھی ایک ہزار۔ ہم بڑوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم صبر کریں۔ عجلت پسندی سے کام نا لیں۔ کتابیں زیادہ پڑھنے سے یا کم پڑھنے سے ہماری اولاد کی عزتِ نفس پر فرق نہیں آنے دیں۔  میں نے خود کتابیں پڑھنا 30 سال کی عمر میں شروع کیا، اور الحمداللہ میرے والدین نے اس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مجھے نکما  قرار  نہیں  دیا۔  دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کے لیے کتابیں دستیاب کرنی ضروری ہیں۔ ابتدا میں ہمیں اپنی مشاہداتی صلاحیت کا استعمال کرنا چاہیے اور بچوں کی دلچسپیوں کو دیکھ کر ان کے مطابق کتابیں لانی چاہئیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کتابوں کا مجموعہ بہت مختلف ہو جائے گا۔ جزاک اللہ!

اصلی لوگ / Real People - Parenting by Waqar Hussain

آج ایک مشکل بات کرنی ہے۔ اللہ کرئے کے میں کر پاوں اور آپ اس کو پڑھ پائیں۔ اَللّٰهُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَهٗ کسی انجانے اور نصاب کی حدوں میں پھنسے ہوئے استاد سے کہیں بہتر ہے کہ ہماری اولادیں اصل لوگوں سے باتیں کریں، اصل لوگوں کو سنیں، اُن کے چہرے دیکھیں۔ یہ کام کرنے سے اللہ  کی ذات سے پوری اُمید ہے کہ کسی بھی بیرونی مداخلت کے بغیر ہماری اولادیں دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی سے ہمکنار ہونگیں۔ روایتی خاندانی نظام میں یہ کام  آسان تھا۔ ایک بڑا گھر تھا، جہاں دادا اور اُن کی تمام اولادیں اپنے اہل و اعیال کے ساتھ اپنے اپنے کمروں میں رہتیں تھیں۔ تمام کمروں کے بیچ میں ایک صحن تھا، جہاں شام میں مختلف نشستیں ہوتیں تھیں،کہیں مکالمے تھے، کہیں سوال تھے،  سننے کا موقع تھا، سیکھنے کا عمل تھا۔ اگر کوئی اپنے اسکول میں کسی نفسیاتی صحت سے محروم اُستاد کا شکار ہو بھی جاتا تھا تو شام میں اپنے روایتی رنگوں میں واپس  آجاتا تھا۔ جیسے انگریزی میں reset ہوتے ہیں ٹھیک ویسے ہی۔ پھر ہوا یوں کہ سب جدید ہوگئے،...

Learning is not the product of teaching / علم پڑھانے کے نتیجے سے نہیں آتا

  Learning is not the product of teaching / علم پڑھانے کے نتیجے سے نہیں آتا یہ جملہ ایک حقیقت کو ظاہر کرتا ہے جسے ہم میں سے اکثر اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سیکھنے کا عمل تعلیمی اداروں اور رسمی تدریسی تجربات تک محدود ہے، مگر یہ تصور حقیقت سے دور ہے۔ کلاس روم کی فضا میں یاد کردہ تعارفی باتیں اور تعلیمی اسباق عموماً یاد بھی نہیں رہتے۔ اصل سیکھنے کا عمل لوگوں سے ہوتا ہے—کبھی اساتذہ سے، لیکن کلاس روم سے باہر۔ جب اساتذہ نے دل سے بات سنی، ہماری سوچ کو سمجھا، اور ذاتی مدد فراہم کی، تب سیکھنے کا حقیقی عمل شروع ہوا۔ دوستوں، ساتھیوں، اور یہاں تک کہ رہنماؤں سے بھی قیمتی سبق ملے۔ ان غیر رسمی مواقع پر وہ بصیرت پیدا ہوئی جو تعلیمی نصاب فراہم نہیں کر سکتا تھا۔ کتابیں بھی ایک اہم ذریعہ بنیں، چاہے وہ اردو میں ہوں یا انگریزی میں، چاہے وہ مغرب کی ہوں یا ہماری اپنی ثقافت سے جڑی ہوئی۔ مگر سب سے زیادہ اہمیت تجربات کو حاصل ہوئی۔ جب ان کتابوں کی باتوں کو عمل میں لایا گیا، غلطیوں سے سیکھا گیا، اور پچھلے علم کو مزید بہتر کیا گیا، تب جا کر علم کا سفر آگے بڑھا۔ یہ سوچ کہ سیکھنا ...

بطور والدین ہمارا فرض

 بطور والدین، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے دنیا کو زیادہ سے زیادہ قابل رسائی اور شفاف بنائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم انہیں مختلف لوگوں، جگہوں اور تجربات تک رسائی دیں جو ان کی شخصیت کو نکھاریں۔ اپنے ساتھ انہیں وہاں لے جائیں جہاں آپ کام کرتے ہیں، شہر اور مختلف جگہوں پر سیر کروائیں، اور انہیں ایسے اوزار، کتابیں، اور کھلونے مہیا کریں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں۔ بچوں کو زندگی کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کروانے سے ان کا تجسس بڑھے گا، اور وہ دنیا کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے قابل ہوں گے۔ صنعتی انقلاب کے بعد (غالباََ 200 سالوں)سے ہمارا یہ فرض ہم پر قضاء ہے۔ اس انقلاب نے ہمیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ہم اچھا یا برا بغیر رجحانات سے مرغوب ہوئے بغیر سوچ سکیں۔ اللہ ہماری مدد کریں۔ آمین!

عجلت اور کامیابی

 ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ جو لوگ تیز رفتار سے آغاز کرتے ہیں، وہی سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔ مگر یہ بات ایک خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ تیز آغاز کوئی ضمانت نہیں کہ آپ منزل تک پہنچیں گے۔ اسی طرح، یہ سوچنا کہ جتنا تیزی سے آپ سیکھیں گے، اتنی ہی کامیابی حاصل ہوگی، بھی محض ایک وہم ہے۔ اصل کامیابی کا راز مستقل مزاجی اور لچک میں ہے۔ آپ جتنا سیکھتے ہیں اور راستے کی مشکلات سے ڈھلنا جانتے ہیں، وہی آپ کو آگے لے جاتا ہے۔ سرمایہ داری نے ہماری سوچ میں یہ تیز رفتاری اور جلدی کا بیج بو دیا ہے۔ اس نظام نے ہمیں سکھایا کہ فوری نتائج ہی کامیابی ہیں۔ لیکن یہ فلسفہ ہمیں گہرائی سے سوچنے، دیرپا ترقی اور اندرونی سکون کی حقیقت سے دور کر رہا ہے۔ اللہ ہمیں اس عجلت، جلدی اور فوراََ  جیسی نفسیاتی بیماریوں سے بچائے۔ آمین!

Nurturing Real Learning: How Discovery-Based Education Can Shape Your Child’s Tarbiyah

Real learning is a journey of discovery, one that flourishes in environments free from the constraints of traditional education. When we give learners the freedom to explore without pressure, we cultivate curiosity and foster deeper, meaningful understanding. This is the essence of unschooling—an approach where education is not confined to textbooks or exams but is self-directed, rooted in interests, and nurtured by a learner’s natural curiosity. Time, leisure, and the absence of rigid structures allow the mind to wander and make connections that might never surface in a controlled classroom, leading to genuine, lifelong learning. As parents, it’s vital to reflect on the impact of rigid schooling on your child’s tarbiyah (moral and personal development). Are we prioritizing academic results over their growth as balanced, inquisitive individuals? By embracing discovery-based learning, you ensure your children develop not only intellectually but also spiritually and emotionally, creating...

مال کی محبت اور ہمارے بچے / The Love of Money and Our Kids

 مال کی محبت سے ہمیں خود بھی بچنا ہے اور اپنی اولاد کو بھی بچانا ہے۔ یہ ہماری تربیت کا ایک اہم موضوع ہونا چاہیے۔ لیکن اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کے ہم اپنی اولاد کو مال کے انتظامات یعنی (Financial Management) کے علم سے دور رکھیں۔  مغربی تہذیب کی نظر کچھ والدین مال کے انتظامات کا علم دینے کے لیے اپنی اولادکو مال کا مالک بنا دیتے ہیں اور پھر توقع رکھتے ہیں کہ اُن کی اولاد بغیر مال کی محبت کے یہ ہنر سیکھ لیں گے۔ غالباََ ایسا ممکن ہوجاتا ہوگا مگر مجھے یہ طریقہ کچھ سیدھا معلوم نہیں ہوتا۔ اس میں بہت خرابیاں نظر آتی ہیں، بلکہ ایسا کہنا کوئی جرم نہیں ہوگا کہ بچوں کو مال کا مالک بنانے سے حبِ مال کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ میرے حساب سے مال کی اہمیت اور انتظامات بھی ہمیں مکالمے اور تجربے کے طرز پر اپنی اولادوں کو دینا چاہیے۔ جیسے کہ ہم اپنے مکالمے میں ایسے موضوعات شام کریں جس سے بچوں کو یہ علم حاصل ہو کے  کیسے اُن کے گھر میں مال آتا ہے؟ یعنی اُن کے ابا جان (یا کوئی بھی کمانے کا ذمہ دار ہے) کتنی محنت سے کما رہے ہیں۔  کیسے حرام مال سے بچا جاتا ہے اور کیسے حلال کمایا جاتا ہے۔ ...

سب سے بڑی علمی صلاحیت / The Biggest Intellectual Skill

یہ جاننا یا اس کا اندازہ لگانا کہ آپ کیا نہیں جانتے یا کس چیز کے بارے میں آپ غیر یقینی ہیں، سب سے بڑی علمی صلاحیت ہے۔ یہ صلاحیت اللہ نے ہر انسان کو فطری طور پر یعنی پیدائش کےوقت سے عطا کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ اپنے آس پاس موجود کسی بچے کو دیکھ کر لگایئے کہ کس طرح وہ کسی انجانی چیز کے بارے میں علم حاصل کرنے کے لیے کتنا بےچین ہوتا ہے۔ وہ نا اپنا نقصان دیکھتا ہے اور نا اپنا فائدہ، اُسے تو بس تجسس ہوتا ہے کہ یہ فلاں چیز ہے کیا۔ مثال کے طور پر کوئی بچہ کسی کھلونے کو دیکھتا ہے تو وہ اُسے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے، اُس سے تجربہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ کس کام آتا ہے اور کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ شاہد آگے جاکر وہ اس کے بارے میں کتاب بھی پڑھنا چاہے گا اور اتنی تفصیل کا منتظر بھی ہوگا کے یہ کھلونا وجود میں کیسے آتا ہے۔ لیکن اتنی نوبت ہم آنے نہیں دیتے۔ ہم تو اِس بچے کو تعلیمی اداروں کے سپرد کردیتے ہیں جہاں اُس کو سیکھنے کی اجازت تو ہوتی ہے مگر صرف اتنی جتنی کے نصاب اجازت دے۔ ہمارا تعلیمی نظام بچے کو تتلی تو دکھا دیتا ہے مگر کبھی تتلی کا تجربہ حاصل ہونے نہیں دیتا، کیونکہ  تتلی کو ہاتھ میں لین...

جدید معاشرے کے پانچ جھوٹے خدا / The Five Wrong Gods of Modern Society

 کچھ عرصہ پہلے جدید جھوٹے خداوں پر  سرسری سی با ت ہوئی تھی۔ تفصیل کے لیے آج یہ درج کررہا ہوں کہ جدید معاشرے کے پانچ بڑے خدا کون سے ہیں اور کیسے ہم ان کی پیروی کررہے ہیں۔ جدید سائنس، ٹیکنالوجی، سرمایہ ،انسانی عقل اور خواہشاتِ نفس۔ یہ جد یدمغربی تہذیب کے پانچ وہ بڑے خدا ہیں جن کے نرغے میں آج کا مسلمان اپنی حیات گزار رہا ہے۔ جدید معاشرہ جس میں آج ہم زندہ ہیں، اس کی تمام سرگرمیاں ان پانچ وسائل سے متعین ہوتی ہیں۔ علم کا حصول ہو یا تربیت کی راہ، دنیاوی معاملہ ہو یا پھر کوئی شرعی بات اب سب ان پانچ خداوں کے آس پاس چکر لگا رہے ہیں۔ اصل خدا یعنی اللہ تعالی تو بس تصور میں ہیں۔ کوئی سرمائے کو پوجتا ہے تو کوئی سائنس کو۔ کوئی عقل کی پیروی کرتا ہے تو کوئی ٹیکنالوجی کی۔ ان پانچوں میں سب سے بڑا ور گہرا اثر رکھنے والا جھوٹا خدا خواہشاتِ نفس ہے جو ہم سے پہلے کی اُمتوں میں بھی تھا اور ہمارے بیچ میں بھی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آج کوئی اپنی اولاد کو تعلیم دے رہا ہے تو اُس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ کل کو اچھا کمانے کے قابل ہوجائے۔ اچھا کمانے سے عمومی مراد یہی ہے کہ وہ یا تو اچھی نوکری پر لگ جائ...

خوشی کا سب سے گہرا تجربہ / The most profound experience of happiness

 خوشی بڑی ہو یا چھوٹی، اس کا گہرا تجربہ انسان بالخصوص اپنوں کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ آج کی مادی دنیا میں ہمارے پاس لوگ تو ہیں مگر رشتے نہیں ہیں۔ رشتے یوں ہی نہیں بنتے، ان پر محنت درکار ہوتی ہے، ان کو ایک پودے کی طرح پانی، کھاد، ہوا اور وقت دینا ہوتا ہے۔ آئندہ کبھی وقت پر کوئی علم حاصل کریں تو ترجیح یہ دیں کہ کیسے ہمارے 24 گھنٹوں میں ان رشتوں پر کام کرنے کے لیے وقت میسر ہوجائے۔  خاص طور پر وہ رشتے جو اپنوں کے ساتھ بنانے ہیں مثلاََ اولاد، بھائی، بہن، ماں، پاب، دادا، دادی، نانا اور نانی۔ میرا مشورہ ہے کہ معاشی ضروریاتوں سے زیادہ ترجیح ہمیں اپنوں کے ساتھ تعلق بنانے کو دینی چاہیے۔ کیونکہ اس معاملے پر یوم الدین میں جواب دینا ہوگا۔